اردو زبان کا تحفظ و فروغ - کیسے اور کس طرح؟
از: عزیز احمد، ۸- آواس وکاس کالونی، بلندشہر روڈ، ہاپوڑ
جناب محترم،
یہ تشریحی نوٹ ایک عملی پروگرام کے ساتھ منسلک ہے
جو اردو زبان کے تحفظ، فروغ اور اس کے حقوق کی بحالی سے تعلق رکھتا ہے۔
اردو بولنے والے معاشرے کا ہر فرد اور فریق اپنے ذوق، احساس فرض، ضرورت اور
وسائل کے مطابق اس پروگرام کوفی الواقع عملی بنانے کے عمل میں
حصہ لے سکتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ حصہ داری صرف انفرادی
بھی ہوسکتی ہے اور بیک وقت انفرادی و اجتماعی بھی۔
یہ پروگرام دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں وہ کام ہیں
جنہیں ہمیں خود کرنا ہے اور دوسرے حصے میں وہ کام ہیں جنہیں
کرانے کے لئے حکومت کو آمادہ کرنا ہے۔ اس پروگرام کے پس پشت نقطئہ نظر اوراس
کے مضمرات کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱- بات ہے صرف لکھنے پڑھنے کی:
علم لسانیات سے یہ نکات اب خاصے جانے پہچانے ہوگئے ہیں کہ
زبان کی دوشکلیں ہوتی ہیں: بول چال کی زبان اور تحریری
زبان۔ اصل زبان بول چال کی زبان ہے اور تحریری زبان
اساساً بول چال کی زبان ہی کی نمائندگی کرتی ہے۔
کسی زبان کو پوری طرح جاننے کا مطلب ہے کہ آپ اس کی ان دونوں
شکلوں کو جانتے اور انہیں استعمال کرسکتے ہیں۔ اس لئے کسی
زبان کو پوری طرح جاننے کے لئے اس کی تمام مہارتیں حاصل کرنا
ضروری ہیں۔ زبان کی بنیادی مہارتیں چار
ہیں:
(۱) سن کر سمجھنا (۲) بولنا (۳) پڑھنا
(۴) لکھنا
جہاں تک مادری زبان کا تعلق ہے
پہلی دو مہارتیں یعنی سن کر سمجھنا اور بولنا سیکھنا
سب کیلئے یکساں طور پر آسان ہوتا ہے کیونکہ یہ دونوں
مہارتیں بچوں کو کم و بیش چار سال کی عمر تک اپنے ماحول میں
خودبخود آجاتی ہیں۔ البتہ باقی دو مہارتوں یعنی
پڑھنے اور لکھنے کو کوشش کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔ اردو زبان کے تعلق سے
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اردو چونکہ ہماری
مادری زبان ہے اس لئے ہم سب لوگ تعلیم یافتہ ہوں یا غیر
تعلیم یافتہ اسے جانتے ہیں اور بلاتکلف بولتے اور سمجھتے ہیں۔
وہ لوگ جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے وہ بھی اردو جاننے والوں میں
ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری بہت بڑی تعداد
اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی۔ اس میں غیرتعلیم
یافتہ اور تعلیم یافتہ دونوں شامل ہیں اور اس وجہ سے ہم
لوگ اردو کو اپنے بہت سے روز مرہ کے کاموں میں استعمال نہیں کرسکتے۔
ہمیں اس بات کو ایک بار پھر سمجھنا چاہئے کہ ہم سب لوگ اردو جانتے
ہیں اور فطری طور پر اسے بولنے کی حد تک استعمال کرتے ہیں۔
لیکن روزمرہ کے بہت سے کاموں میں استعمال کے لئے اس کا لکھنا پڑھنا
جاننا بھی ضروری ہے جو نہایت آسان ہے۔ یہ خیال
غلط ہے کہ اردو لکھنا پڑھنا سیکھنا کوئی مشکل کام ہے۔ اردو نہ
جاننے والوں کے لئے اردو زبان سیکھنا مشکل ہوسکتا ہے، لیکن جن لوگوں کی
مادری زبان اردو ہے ان کے لئے اس کا لکھنا پڑھنا سیکھنا نہایت
آسان ہے۔ یاد رکھئے ہمیں اردو نہیں سیکھنا ہے۔
اردو تو ہم جانتے ہیں۔ ہمیں تو صرف اس کا لکھنا پڑھنا سیکھنا
ہے۔ اردو کی الف بے تے لکھنے پڑھنے اور حروف کو ملاکر لکھنا پڑھنا سیکھنے
سے یہ خوبی بہت تھوڑے وقت میں حاصل ہوجاتی ہے۔ ایک
اندازے کے مطابق اگر ہم ایک ماہ تک ایک گھنٹہ روزانہ اردو کے حروف اور
اعراب و علامات اور ان کا ملانا لکھنا پڑھنا سیکھیں تو کافی
ہوگا اور اگر تین ماہ تک اس عمل کو جاری رکھا جائے تو اچھی خاصی
مہارت حاصل ہوسکتی ہے۔
۲- اردو کا
رسم الخط:
اردو کا رسم الخط اس کا اپنا منفرد رسم الخط ہے اور دنیا کے حسین
ترین رسم الخطوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک طویل
تاریخی عمل سے وجود میں آیا ہے۔ ہم اسے صدیوں
سے اسی شکل میں برتتے اور قبول کرتے آئے ہیں اور اب بھی
کرتے ہیں۔ ہمارا رسم الخط ہمارے تلفظ، ہماری شائستگی اور
ہمارے لسانی، ادبی، علمی اور ثقافتی سرمائے کے تحفظ کی
ضمانت ہے۔ اس ضمن میں کسی بھی نہج سے بعض دوسری
زبانوں کا ذکر تاریخی دلچسپی کا موضوع تو ہوسکتا ہے لیکن
باربار ان کا ذکر عملی اعتبار سے نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ غلط
فہمیوں کا سبب بنتا رہا ہے۔ جس طرح اردو کا ماخذ اس کے اپنے علاقے کے
عوام ہیں اسی طرح اردو کا رسم الخط بھی اپنے علاقے کی تاریخ
کے بطن سے فطری انداز میں صورت پذیر ہوا ہے اور رفع و ارتقا کے
عمل سے گزرا ہے۔ اسے کسی مذہبی تعصب، سیاسی یا
قانونی جبر، کسی سیاسی بحران کے دباؤ یا مصنوعی
لغت سازی کے توسط سے پہلے سے موجود اور مستعمل ایک معیاری
عوامی زبان کے متوازی زبان بنانے کی تحریک کے پس منظر میں
نافذ نہیں کیاگیا تھا۔ لہٰذا اس صورت میں جب
ہم اپنی مادری زبان اوراس کے رسم الخط سے دست بردار ہوتے ہیں تو
اپنی لسانی اصل سے انحراف کرتے ہیں اور اپنے لسانی تشخص
کو مسخ کرتے ہیں اور اپنے وسیع الاساس ہندوستانی قومی
تشخص اوراس کی نمائندہ زبان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔
اردو کے حروف سارے کے سارے اس کے اپنے ہیں، ناگزیر ہیں اور ایک
طویل تاریخی عمل کے مرہونِ منت ہیں۔ ہمارے حساب سے
ان کی تعداد ۵۲ ہے اور ان کے ساتھ ۱۴ اعراب و علامات ہیں۔
دونوں کی مجموعی تعداد ۶۶ ہے۔
یہ سب کے سب ہمارے رسم الخط کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
لہٰذا اردو کو صحت کے ساتھ لکھنے پڑھنے کے لئے ان سب کا سیکھنا بنیادی
ضرورت ہے۔ اردو زبان کی ابتدائی درسی کتابوں میں ان
سب کے ایک ساتھ سکھانے کا اہتمام نہایت ضروری ہے۔ اردو کی
ابتدائی درسی کتابوں کے جائزے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس
معاملے میں ہم سے بڑی غفلتیں ہوئی ہیں جن کے نتائج
نہایت خراب نکلے ہیں۔ ابتدائی درسی کتابوں میں
حروف اور اعراب وعلامات کی معیار سازی اور یکسانیت
ایک اہم ضرورت ہے اور اردو رسم الخط کی صحیح تدریس اور
خود اس کے وجود کے تحفظ کی شرطِ اوّل ہے۔ اردو میں مستعمل اصوات
کی تعداد زیادہ سے ۷۳ ہوسکتی
ہے اور اگر اع، ت ط، س ث ص، ہ ح، زذض ظ میں سے ہر گروپ کو ایک ایک
آواز تصور کریں جیسا کے عمومی اردو بول چال میں دراصل ہے
تو پھر اردو میں کام آنے والی اصوات کی تعداد ۶۵ ہے۔ بہرحال ۷۳ یا ۶۵ مستعمل
اصوات کا انحصار بولنے والوں کے اسلوب پر منحصر ہے۔ اردو میں کام آنے
والی اصوات جتنی بھی ہیں اردو کے حروف اور اعراب و علامات
ان تمام اصوات کو بخوبی بناہ لیتے ہیں۔ اردو اس اعتبار سے
ایک غیر معمولی ہندوستانی زبان ہے کہ اس میں مستعمل
اصوات کی تعداد فرداً فرداً سنسکرت، عربی، فارسی، انگریزی
اور اپنے علاوہ دوسری تمام ہندوستانی زبانوں سے کہیں زیادہ
ہے۔ اور اصوات کی اسی افراط کی وجہ سے ہی اردو والے
دنیا کی کسی بھی زبان کو نسبتاً جلد سیکھ لیتے
ہیں اوراس زبان کا ان کا تلفظ اہل زبان جیسا ہوجاتاہے۔
اردو کے حروف:
ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ذ ڈ ر ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن ں و ہ ی
ے
بھ پھ تھ ٹھ جھ چھ دھ ڈھ رھ ڑھ کھ گھ لھ مھ نھ
(بھالا، پھل، تھالی،
کٹھل، جھاڑو، چھاتا، دھنک، ڈھال، تیرھواں، کڑھائی، کھجور، گھر، کولھو،
کمھار، منھ)
اردو کے اعراب و علامات:
۳- زبان،
کلچر اور تشخص کا تحفظ:
اس دور میں اردو بولنے والے معاشرے کے سامنے ایک بہت ہی اہم
مسئلہ اپنی زبان، ثقافت اور تشخص کے تحفظ کا ہے۔ اس کے لئے ضروری
ہوگیا ہے کہ ہم جہاں اور جب مناسب سمجھیں تھوڑی سی فعالیت
کرکے اپنے بچوں کی پرائمری تعلیم کے پانچ سال میں ان
مقاصد کے حصول کے لئے کوشش کریں۔ پرائمری تعلیم کے بنیادی
مقاصد میں زبان اور کلچر کا تحفظ اور نسل درنسل ان کی منتقلی،
زبان کا لکھنا پڑھنا اوراس کی نظم و نثر کا تعارف، حساب، ماحول کا ادراک اور
مل جل کر رہنے کی تربیت شامل ہیں۔ پانچ سال بہت ہوتے ہیں
بشرطیکہ ہم اپنے پرائمری تعلیم کے پروگرام کے ساتھ سنجیدگی
برتیں۔ اُسے منظم، مربوط اور موثر بنائیں اور اس کی جدید
کاری پر توجہ دیں۔ اعلا درجہ کا نصاب بنائیں، ہر سطح کی
معیاری درسی کتابوں کی تیاری پر توجہ دی
جائے اور ان کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
اور ٹیچروں کو ٹریننگ کی سہولت فراہم کریں۔ پرائمری
تعلیم پر نظر رکھنا ہمارے لئے ناگزیر ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے
رہنے کی بجائے اس شعبہ میں خود فعالیت کریں۔ اور
حکومت کو اس ضمن میں اپنی آئینی فرض گزاری کے لئے
بھی آمادہ کریں۔ موجودہ حالات میں یہ سب قابل عمل
معلوم ہوتاہے۔ یا رکھنا چاہئے کہ زبان اور کلچر کے تحفظ کی ذمہ
داری ہمارے اوپر ہے اگر ہم اپنی زبان اور کلچر کو محفوظ نہیں
رکھ سکتے تو کوئی ہماری مدد نہیں کرے گا۔ یہ بھی
یاد رکھنا ضروری ہے کہ فطری اور موٴثر پرائمری تعلیم
و تدریس اور تربیت صرف مادری زبان کے توسط سے ہی ممکن ہے۔
ورنہ وہ ہوتا ہے جو ہورہا ہے۔
۴- اردو
زبان و ثقافت کے تحفظ کی اہمیت کو سمجھنے کا ایک طریقہ شاید
یہ بھی ہوسکتا ہے:
ہم جس اردو کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اسے اس عام بول چال کی
زبان کے تعلق سے سمجھنا چاہئے جو گنگاجمنا کے دوآبے کے کلچر کا جزو ہے اور جو ایک
طویل تاریخی عمل سے گذر کر شمالی اور وسطی ہندستان
کے بڑے علاقوں کی عام بول چال کی زبان بن چکی ہے۔ ہم جس
زبان کو ایک عرصے سے ہندستانی کہتے آئے ہیں وہ ہمارے ملک کے
متذکرہ بالا تمام علاقوں کی بول چال کی زبان ہے اور ان علاقوں کے سب
لوگ بلا امتیاز مذہب،نسل، رنگ اور ذات پات ایک ہی زبان بولتے ہیں۔
مزید برآں برصغیر میں اس بول چال کی زبان کے بہت سے جزیرے
بھی ہیں۔ عملی طور پر اب یہ بول چال کی زبان
الگ الگ زبانیں بولنے والے برصغیر کے ایک سو پچاس کروڑ عوام کے
درمیان رابطے کی زبان بن چکی ہے۔ اردو دراصل اسی
ہندستانی بول چال کی معیاری شکل ہے۔ اسی وجہ
سے فلمی صنعت کے پہلے دن سے آج تک ہماری فلموں کی مقبول ترین
زبان اردو ہی رہی ہے اور اردو فلمیں تمام برصغیر میں
اور برصغیر کے باہر بھی جنوبی ایشیا، شرق میانہ
اور افریقہ کے کئی ملکوں میں بڑے شوق سے دیکھی جاتی
ہیں۔ جو اردو ہمارا موضوع ہے وہ ہمیشہ عام بول چال کے قریب
رہتی ہے اور ہمیشہ کی طرح اب بھی اس کے عصری اور
فطری رجحانات کو فطری انداز میں بلا مزاحمت جذب کرتی رہتی
ہے۔ اس بناپر کئی سو سال سے ارد وہماری مشترکہ تہذیب کا
خوب صورت مظہر اور معتبر ترجمان ہے۔ یہ ملی جلی تہذیب
برصغیر کی مثالی تہذیب ہے۔ اسے ہم گنگاجمنی
تہذیب بھی کہتے ہیں۔ مہذب گفتگو، آداب کا معیار،
رواداری، علم و انسان دوستی، مل جل کر رہنے کا شعور، وطن سے محبت،
شرافت اور نفاست، پیار اور بھائی چارہ، شائستگی اور شگفتگی،
ایک دوسرے کا لحاظ و احترام اور خوب سے خوب تر کی تلاش اس کی
قدریں ہیں۔ یہ تہذیب اٹھارہویں صدی کے
طوفانوں سے فنا نہیں ہوئی۔ ۱۸۵۷/ کے سیاسی تصادم اور بیرونی
غلبے سے ختم نہیں ہوئی اور ۱۹۴۷/ کے خونیں سیلاب میں ڈوب کر بے نشان نہیں ہوئی۔
یہ تھی، ہے اور رہے گی۔ وجہ ہمارا تہذیب سازی
کا فارمولا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے لئے کوئی غیر نہیں
ہے۔ ہم فطری انداز میں آنے والے خارجی اثرات کو برضا و
رغبت جذب کرلیتے ہیں۔ دوسروں سے بلاتکلف سیکھتے ہیں
لیکن خود کو برقرار رکھتے ہیں۔
اردو کے گھر کے بارے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں
ہے۔ ہندوستان کے سب علاقے اردو کے علاقے ہیں۔ جو علاقے اب ہندی
کے کہلائے جاتے ہیں وہ سب اردو کے ہیں۔ اسی اردو کے جو
کبھی ہندی کہلاتی تھی۔ وہ علاقے اب بھی بالکل
اسی طرح ہیں جیسے پہلے تھے۔ ان میں اب بھی وہی
زبان بولی جاتی ہے جو پہلے بولی جاتی تھی۔ ہم
اسے اردو/ ہندی بھی کہہ سکتے ہیں آپ اس علاقے میں گھوم کو
خود مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ اس زبان کا ایک ہی علاقہ ہے اور ایک
ہی زبان بولی جاتی ہے۔ آج کے زمانے میں ہم اس بات
کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہندی کاجو علاقہ ہے وہی
اردو کا علاقہ ہے۔ البتہ اُس جدید ہندی کا کوئی علاقہ
دکھائی نہیں دیتا نہ ہی کہیں وہ رابطہ کی
زبان ہے جو گزشتہ چھ دہائیوں میں معرض وجود میں لائی گئی
ہے۔ کیونکہ وہ کسی بھی علاقہ کی بول چال کی
زبان نہیں ہے۔ جہاں تک اردو کا تعلق ہے وہ نہ کبھی بے گھر تھی
نہ ہوئی نہ ہوسکتی ہے۔ جس زبان کے کروڑوں بولنے والے ایک
ساتھ ایک ہی علاقے میں زندگی گذارتے ہوں، وہ بے گھر کس
طرح ہوسکتی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے بعد یہ سچائی
واضح ہوجاتی ہے کہ ایک زندہ عوامی اور علاقائی زبان کی
حیثیت سے اردو کے بے گھر ہونے یا ختم ہونے کا کوئی سوال ہی
نہیں پیدا ہوتا۔ علاقے کے تعلق سے سچائی یہ ہے کہ
اردو کا اپنا نہایت وسیع علاقہ ہے۔ وہ اپنے اس علاقے میں
بھی ہے اور ماوراء بھی۔ اور اس دور میں تو حالت یہ
ہے کہ اپنے علاقے اور برصغیر کے باہر بھی ساری دنیا میں
اردو کے مراکز پیداہوتے چلے جارہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ،
جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ، یورپ،
امریکہ، کنیڈا ہر جگہ اردو پہنچ رہی ہے۔ کتنی جگہیں
ہیں جہاں اردو والے اپنی دنیا بناکر رہ رہے ہیں۔
اردو کے اخبارات اور رسائل نکال رہے ہیں، اردو تعلیمی ادارے
چلارہے ہیں،اردو کی ادبی انجمنیں بناتے ہیں، شعر و
ادب کی محفلیں سجاتے ہیں۔ایسے لوگ بھی ہیں
جو دوسرے ملکوں میں رہائش پذیر ہیں اور اردو شعری ونثری
ادب کی تخلیق میں مصروف ہیں۔ خود ہندستان میں
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے نام سے ایک
بڑی یونیورسٹی قائم ہوچکی ہے جس میں تمام
علوم و فنون کی تدریس اردو زبان کے توسط سے ہوتی ہے۔
جامعہ اردو علی گڑھ تمام ملک میں اپنے زیر اہتمام کرائے جانے
والے اردو زبان و ادب کی درجہ بند لیاقتوں کے امتحانات کی بنیاد
پر اسناد جاری کرتی ہے جنھیں بہت سے سرکاری اور نیم
سرکاری اداروں کی رسمیت شناخت حاصل ہے۔ اگر جامعہ اردو
والے اپنے کورسوں کو پوری طرح فاصلاتی تعلیم کے طرز پر چلاکر زیادہ
مفید معیاری اور معتبر بنانا چاہیں تو اس کے لئے انہیں
اپنے طلبہ کو کتابیں،اسباق، تفویضات اور کیسٹ فراہم کرنے ہوں گے
اور اپنے اسٹڈی سینٹر صرف معیاری اداروں میں قائم
کرنے ہوں گے۔ حکومت ہند کے تحت ایک خودمختار ادارے کی حیثیت
سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ۱۹۹۶/ سے سرگرم عمل ہے۔ اردو، فارسی اور عربی کے فاصلاتی
کورس، کمپیوٹر تعلیم، خطاطی اور گرافک ڈیزائن،اردو پریس
پروموشن، درسی اور غیردرسی کتابوں اور مجلّوں کی اشاعت،
اردو کا رشتہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے جوڑنا اور تعلیمی
مشاورت وغیرہ کونسل کی فعالیت کی قابل قدر حصولیابیاں
ہیں۔ اس کونسل سے بجاطور پر اور بھی توقعات وابستہ کی
جاسکتی ہیں۔ ہندوستان میں اور ہندستان سے باہر بہت سارے
ملکوں کی دانش گاہوں میں اردو زبان و ادب کی تدریس وتحقیق
کے شعبے موجود ہیں اور دنیا کے تمام بڑے اور اہم ریڈیواسٹیشن
چوبیس گھنٹے میں کئی بار اردو خبریں، مباحثے اور کلچر
پروگرام نشر کرتے ہیں۔ کلاسیکی، جدید ہندستانی
اور مغربی دھنوں کے ساتھ اردو غزلیں اور گیت پورے جنوبی ایشیا
میں رات دن گائے جاتے ہیں۔ اس زبان کی موسیقی
کو ساری دنیا سنتی ہے اور لطف اندوز ہوتی ہے۔ ان سب
باتوں سے ”سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے“ کے شاعرانہ
دعوے کی تصدیق ہوتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں
ہے کہ اب اردو کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی
چند زبانوں میں ہوتاہے۔
ہم جب تحفظ کی بات کرتے ہیں تو اس اردو کی بات کرتے ہیں
جس کی اساس ہندستانی بول چال ہے۔ اردو سے ہماری مراد وہی
زبان ہے جس کا نام کبھی ہندی تھا۔ کاش ہمیشہ رہتا۔ یہ
بات ایک بار پھر دہرادیں کہ ہم جس اردو / ہندی کی بات
کرتے ہیں وہ جدید ہندی نہیں ہے جو گزشتہ ساٹھ سال میں
ایک متوازی زبان کی حیثیت سے معرض وجود میں
لائی گئی ہے۔ اردو نہ فارسی ہے نہ عربی، نہ سنسکرت،
نہ ترکی، نہ انگریزی۔ ان میں سے کسی بھی
زبان کا شمالی ہندوستان میں صدیوں سے بول چال کی زبان کی
حیثیت سے استعمال ہونے کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں
ہے۔ اردو ایک منفرد زبان ہے اور اس کا ایک اچھا سا نام ہندوستانی
بھی ہے اور اردو صدیوں سے اسی زبان کی معیاری
شکل ہے۔ ہمارے نئے آئین میں دفعہ ۳۵۱ کے تحت اس زبان کے فروغ کے لئے جو ہدایت درج
ہے اس کا منشا واضح طور پر یہ ہے کہ اس کا فروغ اس طرح ہو کہ یہ زبان
ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و تمدن کے تمام عناصر کے اظہار کے میڈیم
کے طورپر کام آئے۔ لیکن ترقی و وسعت کے اس عمل میں اس
زبان کے مزاج کے ساتھ کوئی دخل اندازی نہیں ہونا چاہئے لیکن
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض سیاسی اغراض کی وجہ سے اس زبان
کے ساتھ جو ترقی کے اعلا مدارج میں داخل ہوچکی تھی دفعہ ۳۵۱ کی اسپرٹ کے خلاف چھیڑ
چھاڑ کی گئی اور بعض افراد اور ادارے جو غالباً مشترک تہذیب کو
توڑنا چاہتے تھے اس زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دینے لگے تھے ایک
ایسی زبان بنانے میں جٹ گئے جو ان کے بزعم خود صرف ایک
مخصوص تہذیب کی ترجمانی کرے۔ ان لوگوں کے توڑ پھوڑ کے اس
عمل میں صدیوں سے مستعمل لفظیات اوراصطلاحات کو خصوصی
نشانہ بنایا گیا۔ صدیوں سے جاری تہذیبی
میل ملاپ کے فطری عمل سے زبان میں داخل ہوئے الفاظ غیرمانوس
اور گھڑے ہوئے الفاظ سے بدل دئے گئے۔ اور اردو رسم الخط اورادبیات
اوراردو تدریس کو زمین دوز کرنے کی کوشش کی گئی۔
بہرحال اس غیرفطری عمل سے ایک ایسی زبان وجود میں
آگئی ہے جس میں نہ تلفظ کا کوئی معیار ہے نہ عوامی
روز مرہ کالحاظ ہے نہ اصل زبان کے مزاج سے کوئی مناسبت ہے۔ اس لسانی
جبر اور تہذیبی مخاصمت سے ایک کلچرل اور ترسیلی خلا
پیدا ہوگیا ہے اور تخلیقی صلاحیتوں پر بھی
برا اثر پڑا ہے۔ اردو/ ہندی ہماری مشترک تہذیب سے منسلک
ہے۔اس کا فروغ اسی تہذیب کے آغوش میں ہوا ہے۔ لہٰذا
نہیں ایک دوسرے سے علاحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک
کو مسخ کیجئے دوسری فوراً مرجھاجائے گی۔ اس تہذیب کی
اساس ہندومسلم بھائی چارہ اور یہ زبان ہے۔ جس طرح ہندومسلم
اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ ایسی تمام تحریکیں بند کی
جائیں جو ان دونوں فرقوں میں نفاق پیدا کرتی ہیں۔
اسی طرح اردو/ ہندی جو شمالی ہند کی اصل زبان ہے اور سارے
ملک میں رابطہ کی زبان ہے اس کے اصل وجود، لفظیات، تلفظ، رسم
الخط اور ادب کو ہر حالت میں برقرار رکھا جائے اور اس کے مزاج کا احترام کیا
جائے۔ یہاں اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے کہ اردو والے ہمیشہ
سے سیاسی اغراض سے ماوراء اس عوامی زبان کی نوک پلک درست
کرتے آئے ہیں اور انھوں نے کبھی بھی شعوری طور پر اس زبان
کی شکل و صورت کو اس طرح مسخ کرنے کی غلطی نہیں کی
ہے۔ اردو کا منبع و مخرج خارجی نہیں بلکہ خود ہمارے عوام ہیں،
ہماری زمین اور ہماری تاریخ ہے۔ ہم اپنی زمین
اوراپنی تاریخ سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی مسرتوں اور
پریشانیوں میں اخلاقی اور روحانی طور پر شامل ہیں۔
اپنی زمین اور تاریخ سے نہ تو شرماتے ہیں اور نہ ہی
ان پر بیجا فخر کرتے ہیں۔ ان کے تئیں مثبت، معتدل اور
جراَت مندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ اور ان سے سچائی، حسن،
اچھائی اور پیار کے موتی نکالتے ہیں، نفرت و نفاق کے
پتھرتلاش کرتے نہیں پھرتے۔ اردو کی طاقت اورحسن و خوبی
بول چال کی زبان سے وفاداری کی وجہ سے ہے اور بالآخر یہی
وفاداری اس کے تسلسل، تحفظ اور فروغ کی ضمانت ہے اور رہے گی۔
ہم اس اردو کی بات کرتے ہیں جس کا ایک خوبصورت اور منفرد رسم
الخط ہے اور جس کی ایک بے مثال تہذیب ہے اور اس تہذیب کے
خمیر میں بہترین انسانی و اخلاقی قدریں جذب ہیں
اور جس سے اس ملک کے سبھی لوگ پیار کرتے ہیں۔ یہ
تہذیب اساساً سیکولر ہے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی
ہے سیکولر اور انسان دوست ہے۔ اس کا فرقہ واریت یا کسی
بھی دوسری طرح کے منفی طرزِ فکر سے کوئی تعلق نہیں
ہے۔ اردو اوراس کی شاعری مختلف مذہبوں، زبانوں، نسلوں اور مقامی
تمدنوں سے جڑے ہوئے کروڑوں لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔اس
اعتبار سے ملک کے اندر اور برصغیر کے عوام کے مابین رابطہ کے لئے اردو
کا کوئی اور فطری اور مناسب متبادل نہیں ہے۔ سچائی
تو یہ ہے کہ اردو نہ صرف ہمارے ملک اور برصغیر میں بلکہ تمام
جنوبی ایشیا اور بیشتر مشرق وسطیٰ میں
لوگوں کے درمیان رابطہ کا فطری وسیلہ یا لنگوا فرینکا
ہے۔ اردو کا اپنا رنگارنگ معیاری علمی و ادبی سرمایہ
ہے جو کئی سو سال سے بغیر کسی رکاوٹ کے تخلیق پذیر
ہے اورآج بھی سب کا سب اردو کے اپنے منفرد رسم الخط میں محفوظ ہے۔
اگر اردو کے تعلق سے سن ۱۹۴۷/
سے قبل کی اپنی لسانی
تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتاہے کہ ایک ہندستانی بولی
دوسری تمام ہندستانی بولیوں اور چند خارجی زبانوں سے طویل
صدیوں کے دوران باہمی اثر اندازی اور اثر پذیری کے
نتیجے میں بتدریج ایک طاقتور، پُرمعنی، بے تکلف، دل
پذیر اور شائستہ اظہار کی زبان بن گئی اور ایک کثیر
لسانی معاشرے میں مہذب گفتگو اور موثر تحریر و تقریر کا
وسیلہ قرار پائی۔ صرف اردو ہی ایسی زبان کی
حیثیت سے آگے آئی جو صدیوں پرانے دفتری اور عدالتی
نظام اور مشترکہ ثقافتی اثاثے کے تسلسل کو برقرار رکھنے کا فطری ذریعہ
بن سکتی تھی۔ مزید برآں دوسری خوبیوں کے
علاوہ وہ اُس فطری اور وسیع الاساس قوی تشخص کی زبان کے
اعتبار سے بھی اہم ہوگئی تھی جو صدیوں کے تاریخی،
سیاسی، معاشی اور ثقافتی عمل سے اس وسیع و عریض
ملک میں پیدا ہورہا تھا۔ یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے
کہ یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی اور قانون کی پشت پناہی
کے بغیر ہوا۔ اردو زبان کی تاریخ میں پہلی
بار ایساہوا کہ انگریزوں کے زیر تسلط بیشتر علاقوں اور دیسی
ریاستوں میں سوبرس سے زیادہ تک انگریزی کے ساتھ
اردو کو بھی تعلیمی، دفتری اور عدالتی استعمال کی
سعادت حاصل رہی اور ملک کی ایک یونیورسٹی میں
تو وہ ہرقسم کی اعلا تعلیم کے میڈیم کی حیثیت
سے بھی استعمال ہورہی تھی۔ اردو سب کی زبان تھی
پہلی یا دوسری یا تیسری۔ اصل صورت حال
اب بھی اس سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بہرحال اس ملک کے
تعلیم یافتہ لوگ بڑی تعداد میں اس زبان کو بولنے کے علاوہ
اس کے ہر ممکن رسمی و غیر رسمی استعمال سے بھرپور استفادہ کرتے
تھے۔ قصہ مختصر سن ۱۹۴۷/ تک اردو اپنے فطری رفع و ارتقا کے طویل عمل سے گزر کر عام بول چال
کے علاوہ ادب، علوم، صحافت، نغمہ سرائی، فلم، میڈیا، تعلیم،
عدالت اور دفتر کی نہایت پسندیدہ، مستند اور برصغیر میں
رابطے کی ہمہ گیر زبان کی حیثیت سے دنیا کی
بڑی زبانوں میں شامل ہوچکی تھی۔ لیکن آج صورت
حال یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران ہم ایک ثقافتی بحران
میں پھنسے رہے ہیں جس کے اسباب میں ایک اہم سبب جذباتیت
زدہ لسانی پالیسی اور اردو زبان و ثقافت کی پامالی
بھی ہے۔ یہ اس طرح کا بحران ہے جس میں اردو والوں اور ان
کی لسانی و تہذیبی ثقافت کے درمیان دیواریں
کھڑی کردی گئیں اور انہیں پیش رفت کی تمام
راہیں گم ہوتی نظر آنے لگیں۔ بوکھلاہٹ میں ہم شاید
یہ بھی بھول گئے کہ بات صرف روزی روٹی کی نہیں
ہے۔ ایک فطری لسانی ثقافت ہماری اخلاقی،
روحانی اور ذہنی صحت مندی کے لئے ضروری ہے اور یہ
زندگی کے سفر کے لئے ایک خود کار رہنما بھی ہے۔ بہرحال
کوتاہ بینی ہماری خوبصورت اور فطری زبان و ثقافت کی
پامالی کا سبب بن گئی اور اب ہمارے لئے ایک ہی راستہ بچا
ہے جو یہ ہے کہ اس بحران سے نکلنے کے لئے ہم سب مل کر مخلصانہ اور بھرپور
کوشش کریں۔
اردو زبان و تہذیب کے سودیشی عوامی، قومی اور
عالمگیر کردار کے باوجود اس کے تحفظ اور فروغ کی ذمہ داری اگر
پورے اردو معاشرے کے صرف ایک طبقے پر ڈالی جاتی ہے جو اس کی
وفاداری سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہے تو پھر اس ورثے کے
تحفظ کی ذمہ داری نبھانے کا جواز معلوم ہونا ضروری ہے۔ ہم
جانتے ہیں کہ ہمارے لئے اپنی پیڑھیوں کے درمیان
کلچرل اور لسانی تسلسل کو ہر حال میں باقی رکھنا ناگزیر
ہے۔ ایسا کئے بغیر ہم اپنے علمی و ادبی اور ثقافتی
ورثے کا تحفظ نہیں کرسکتے جو ہمارے فطری رفع وارتقا اور ہمہ گیر
پیش رفت کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور ہمارے خاندانوں کو استقامت بخشتا
ہے۔ اس سے محروم ہوکر ہم بے خدوخال اور بے شخصیت ہوجاتے ہیں۔
ہمارے نام بگڑجاتے ہیں، تلفظ خراج ہوجاتاہے، جملوں کی چولیں ڈھیلی
ہوجاتی ہیں، ترسیل میں خلا پیدا ہوجاتا ہے اور مہذب
گفتگو مشکل ہوجاتی ہے۔ ہمارے خاندان منتشر ہوتے ہیں۔ ہماری
اقدار تباہ ہوجاتی ہیں۔ معاشرتی زندگی کی بنیادیں
ہل جاتی ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام بے سمت ہوجاتا ہے۔
ہم اس صورتِ حال پر کڑھتے رہتے ہیں۔ اس بات سے آخر کون انکار کرسکتا
ہے کہ مادری زبان کی صحیح شکل و صورت کا تحفظ اور روز مرہ زندگی
میں اس کا موثر اور آزادانہ استعمال ہی ہماری خوشی،
خوشحالی اور بقا کا ضامن ہے۔ یوں بھی کھرے سکوں کوکھوٹوں
سے بدلنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ یہ شایدہمارے
وقار اور غیرت کا سوال بھی ہے۔ تاریخ نے اس عظیم
لسانی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کی جو ذمہ داری ہمارے اوپر
ڈال دی ہے ہم اسے آخر کیوں نہ پورا کریں؟ یہ دراصل ایک
چیلنج ہے اورہماری عافیت، خوشی اور روحانی آسودگی
کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسے بخوشی قبول کرلیں، اس سچائی کو
پیش نظر رکھتے ہوئے کہ یہ زبان و ثقافت جس کا ہم تحفظ کررہے ہیں
قومی ورثہ ہے اور اسکا خسارہ سب کا خسارہ ہوگا اوراس ورثہ کو نقصان پہنچانے
کی جو غلطی ہوئی ہے اسے جلد یا بدیر درست کرلیاجائے
گا۔ یہ کام مشکل نہیں ہے۔ اگر ہم سب ملک کر باتوں کے
بجائے عمل، اپنے وسائل پر اعتماد اور اپنی مدد آپ کے اصولوں کو مشعل راہ
بنائیں اور پورے خلوص کے ساتھ اس کام کو کرنا شروع کریں تو یہ
ہمارے لئے بالکل آسان ہوجائے گا اور وہ بھی جو ابھی تک ہمارے ساتھ نہیں
ہیں ہمارے ساتھ آجائیں گے۔
آنکھیں اگر کھلی ہوں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ دور کتنا ہی
پرآشوب کیوں نہ ہو اس کا ایک اطمینان بخش پہلو بھی ہے اور
وہ یہ ہے کہ کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو کسی
دوسرے کے حقوق زیادہ دیر تک پامال نہیں کرسکتا۔ نہ کوئی
ہمارا حق دبائے رکھ سکتا ہے نہ ہم کسی کا۔ ہم کسی کا حق دبا نہیں
رہے۔ ہمارا ضمیر صاف ہے۔ لہٰذا ہمیں پرامید
رہنا چاہئے۔
۵- تحریک:
یہ پروگرام اپنے اندر ایک تحریک بننے کی صلاحیت
رکھتا ہے۔ ہم جہاں بھی رہتے ہیں اگر وہاں یکساں فکر رکھنے
والے چند احباب مل بیٹھیں اور ایک اردو مرکز/ اردو کلب/ اردو سینٹر/
اردو گھر کا تعین کرکے ایک مشاورتی/ جائزہ کمیٹی
بنالیں تو کام شروع ہوجائے گا۔ اس پروگرام کو اردو مرکز کی
ابتدائی میٹنگ میں ایجنڈے کی حیثیت سے
استعمال کیا جاسکتا ہے اوراس پر عمل درآمد کی راہیں نکالی
جاسکتی ہیں۔ اس پروگرام کو بتدریج آگے بڑھایاجاسکتا
ہے۔ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ
پروگرام عملی ہے۔ بیکار بحث یا اردو کی تاریخ
و جغرافیہ بیان کرنے کا منصوبہ نہیں ہے۔ اس لئے وقتاً
فوقتاً اس پروگرام کے حوالے سے مرحلہ وار پیش رفت کا جائزہ لیتے رہنا
ضروری ہوگا۔ یقین رکھیے کہ اس کام میں نہ کوئی
جبر ہے نہ سیاست، نہ ذاتی مفاد۔ بات صرف اپنی زبان و
ثقافت سے پرخلوص وفاداری کی ہے اور بس۔
۶- اشاعت
اور ترویج:
اگر آپ قومی جذبہ رکھتے ہیں تو ایک قومی ورثہ کے تحفظ
اور فروغ کی کوششوں میں اپنے وجدان کے مطابق معاون بن سکتے ہیں۔
اگر کسی اخبار یا رسالے سے منسلک ہیں تو اپنے موقر جریدے
میں اس تشریحی نوٹ اور عملی پروگرام کو تھوڑی سی
جگہ عنایت فرماکر اس پروگرام کی مزید اشاعت اور ترویج میں
مدد کرسکتے ہیں۔اگر کسی یونیورسٹی/ کالج/
اسکول میں ہیں تو اس پروگرام کو تحریک بناسکتے ہیں۔اگر
صحافی، ادیب یا مضمون نگار ہیں تو اپنی تحریروں
میں کبھی کبھی اس پروگرام کے عملی پہلو اور اپنی
مدد آپ کے اصول کو اجاگر کرسکتے ہیں اور ان موضوعات کی وضاحت اور تشریح
کرسکتے ہیں جن کا ذکر اس پروگرام میں مختصراً یا اشارتاً کیاگیا
ہے۔ اگر کسی مدرسے میں ہیں تو دین کی حقیقی
تفہیم اور اس کی روح تک رسائی کے لئے اور اپنے نصاب کے درس و
تدریس کو آسان، عام فہم اور موثر بنانے کے لئے اردو کی ناگزیریت
کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پورے کے پورے پروگرام کو اپنے مدرسے میں عملی
جامہ پہناسکتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر تقریر کرتے
ہیں، خطبہ دیتے ہیں، یا وعظ کرتے ہیں تو بڑی
آسانی سے اس پروگرام کے پیغام کو لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں اور
ان میں اپنی مادری زبان سے محبت اور وفاداری کے جذبات کو
بروئے کار لاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس پروگرام کی فوٹوکاپیاں
بنواکر تقسیم کراسکتے ہیں۔ مختصر یہ کہ آپ جہاں کہیں
بھی ہوں کچھ بھی کرتے ہوں کسی بھی حال میں ہوں اپنے
گردو پیش میں کم از کم مادری زبان کی پوری شکل و
صورت کے تحفظ کا جذبہ تو پیدا کرہی سکتے ہیں۔ ہمیں یقین
ہے کہ اگر چند مقامات سے بھی دیر پا جنبش ہوتی ہے تو کام بن
جاتا ہے۔
۷- اردو کے
حقوق کی بحالی:
ہمارے دور میں اردو کے حقوق بری طرح متاثرہوئے ہیں۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ اردو کا استعمال سرکاری اور
تعلیمی سطحوں پر یاتو بالکل بند کردیاگیا ہے یا
محدود رکھا جارہا ہے۔ جب ہم اردو کے ان حقوق کی بحالی کا مطالبہ
کرتے ہیں تو اس ملک کے کروڑوں لوگوں کی مادری زبان کا تحفظ اور
ہر سطح کے تعلیمی اداروں اور دفتروں میں اس کے آزادانہ استعمال
کے ان حقوق کی بحالی چاہتے ہیں جو انہیں تاریخی،
اخلاقی اور قانونی طورپر ہمیشہ حاصل رہے ہیں لیکن
گزشتہ پچاس سال کے دوران غیرمعمولی طور پر پامال ہوئے ہیں۔
ہم واضح طور پر اردو بولنے والوں کے اکثریتی اور اقلیتی
دونوں طرح کے علاقوں میں سرکاری اور تعلیمی سطحوں پر اردو
کا آزادانہ استعمال چاہتے ہیں۔ ہم ہرحالت میں اپنے بچوں کو
ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں دینا
چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ہر سطح پر ادو کو کم از کم ایک زبان کی
حیثیت سے پڑھنے اورہر سطح پر اردو میڈیم ادارے قائم کرنے
کا حق چاہتے ہیں۔ یہ وہ حق ہے جو ملک کی دوسری تمام
زبانوں کو اس ملک میں حاصل ہے اور جو پہلے ہمیں بھی حاصل تھا لیکن
اب پامال ہورہا ہے اوراس بے انصافی کو کوئی معقول وجہ بھی نہیں
ہے۔ اس لئے اردو کو ہندستان کے تعلیمی نظام میں اس کا
مقام دلانے اور سرکاری نظام تعلیم میں مناسب تبدیلیوں
کے لئے آواز اٹھانا اور سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں
اردو کے استعمال کے حق کو عملی بنانے کی کوششیں کرنا اور پرامن
جمہوری مہم چلانا ہمارے فرائض میں داخل رہا ہے۔ بہرحال ہماری
پیروی کے باوجود ہمارے لسانی حقوق کی بحالی میں
تاخیر ہورہی ہے۔ اس جملہ صورت حال کے پیش نظر ہمارے لئے
اس نکتہ کو سمجھنا ضروری ہے کہ اردو کے حقوق کی بحالی کا بہت
گہرا تعلق ان سب باتوں سے ہے جو زیر نظر پروگرام میں بیان کی
گئی ہیں۔ اس پروگرام کے مقاصد کے حصول سے اردو کے حقوق کی
بحالی کا عمل آسان ہوسکتا ہے۔ پہلے وہ کام کریں جو پہلے کرنا
چاہیے۔ اگر آپ اس تذبذب میں ہیں کہ اونٹ باندھیں یا
نہ باندھیں، کیا توکّل کافی نہیں ہوگا، تو ہمارا مشورہ ہے
کہ دونوں کام کریں لیکن پہلے اپنا اونٹ باندھ لیں پھر توکّل کریں۔
۸- پروگرام
کا عملی اور مقامی کردار:
متاسفانہ یہ پروگرام شاید ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جو ہر
کام کو آل انڈیا لیول سے شروع کرتے ہیں۔ ہمارے نقطئہ نظر
سے اپنی عملی حیثیت کے پیش نظر یہ بالکل مقامی
ہے۔ جب تک مقامی ذہن کام نہیں کرے گا خاطر خواہ پیش رفت
نہیں ہوگی۔ ہر یونٹ کام کرے تو مرکز کے بھی کوئی
معنی ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ہر جگہ اگر صرف چند لوگ ہی
فعالیت کریں تب بھی مجموعی طور پر بڑا کام بن سکتا ہے۔
کام شروع تو کیجئے۔ اس کام کو شروع کرنے کے لئے کسی بڑی
نقل و حرکت یا تیاری کی ضرورت نہیں ہے اور جزوی
عمل درآمد میں تو سرے سے کوئی دقت ہی نہیں ہے۔
اگر کچھ اور نہ کرسکیں تو:
خدانخواستہ اگر ضعفِ عمر، خرابی صحت یا غیرمعمولی عدیم
الفرصتی کی وجہ سے اس پروگرام پر عمل درآمد کے لئے آپ کچھ اور کرسکنے
سے معذور ہوں تو کم از کم اتنا کرنے کی تکلیف لطفاً گوارہ فرمالیجئے
کہ تشریحی نوٹ اور عملی پروگرام دونوں کی دست دست فوٹوکاپیاں
بنواکر ایسے افراد تک پہنچادیں جن کے بارے میں آپ یہ
سمجھتے ہوں کہ وہ اس ضمن میں کچھ کرسکتے ہیں۔
***
_________________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 5، جلد: 92 ، جمادی الاولی 1429 ہجری
مطابق مئی 2008ء